Allama Iqbal's "Philosophy of Self" and his "Spiritual Life"



علامہ اقبال ہمارے قومی شاعر اور مفکرِ پاکستان ہیں.آپ کی شاعری  انسانیت , اخوت و بھائی چارے کا درس دینے کے ساتھ ساتھ خودی کی پہچان کا بھی سبق دیتی ہے...


"فلسفہ خودی" تصوف کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی.....رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا ارشاد ہے " جس نے اپنی ذات کی پہچان کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا"


جس نے inner self کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا.......معلوم ہوا کہ اللہ کی پہچان کا ایک ذریعہ اپنی "ذات" پر غور و فکر کرنا بھی ہے...

علامہ اقبال کی شاعری انسان کو اپنی ذات اور کائنات کے اسرار و رموز پر "غور و فکر" کرنے پر مائل کرتی ہے..

اللہ تعالی کا فرمان ہے کہ "اس کائنات اور تمہارے اپنے نفوس میں میری نشانیاں ہیں"

آج کا موضوع "فلسفہ خودی" اور علامہ اقبال کی روحانی زندگی ہے.....اکثریت , علامہ اقبال کو صرف قومی شاعر کی حیثیت سے جانتی ہے...اقبال کی حقیقت سے شناسا وہی ہوتا ہے جو ان کی شاعری کو پڑھتا ہے اور سمجھتا ہے......اقبال ناآشنا جو ہے وہ مزارِ اقبال پر علامہ اقبال کو قومی شاعر یا مفکرِ پاکستان سمجھ کر حاضر ہوتا ہے اور اقبال آشنا جو ہے وہ اقبال کو مردِ خود آگاہ , عارف بااللہ , حق آشنا اور ولی اللہ سمجھ کر بڑے ادب کے ساتھ حاضر ہوتا ہے....

علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں کائنات اور اس کے اسرار و رموز بیان کیے ہیں....انسان , کائنات اور خدا , علامہ اقبال کی شاعری کا موضوع نظر آتے ہیں..

فلسفہ خودی کی بات کروں تو اقبال نے انسان کی inner self کو خودی کے نام سے موسوم کیا ہے...خودی کیا ہے ? خودی دل ہے , روح ہے....inner self...

آپ فرماتے ہیں....


زمین و آسمان و عرش و کرسی

خودی کی زد میں ہے ساری خدائی


اقبال کے نزدیک تمام کائنات انسان کے نقطہ ء ذات سے منسلک ہے اور انسانی ذات , انوارِ کبریا کا پرتو....


ارشادِ حق تعالی ہے...

"جب میں اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب سجدے میں گِر جانا"


اسی روح کی پہچان , خودی کی پہچان ہے اور یہی من عرف نفس فقد عرف ربہ کی تفسیر.......


علامہ اقبال نے انسان کی زندگی اور خودی کو ان اشعار میں بیان کیا ہے....



"زندگانی ہے صدف , قطرہ ء نیساں ہے خودی

وہ صدف کیا کہ جو قطرے کو گہر کر نہ سکے

ہو اگر خود نگراں خود گر و خود گیر خودی

یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے"


یا حی و یاقیوم

اقبال کہتے ہیں کہ انسان کو وہی مقام دوبارہ حاصل کرنا ہے جس مقام سے یہ گر چکا ہے....اس مقام کو "مقامِ بہشت" کہتے ہیں اور وہاں حیاتِ جاوداں ہے اور بس......


یہیں بہشت بھی ہے، حور و جبرئیل بھی ہے

تری نگاہ میں ابھی شوخی ء نظارا ہی نہیں


بابا بلھے شاہ سرکار جب اس مقام پر پہنچے تو آپ نے فرمایا...


"بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں

گور    پیا   کوئی    ہور"


علامہ اقبال کے نزیک عشق کو وہ مقام حاصل ہے جو انسان کو خدا کے بہت قریب کر دیتا ہے...آپ عشق کی اہمیت اس شعر میں یوں بیان کرتےہیں...


"اگر ہو عشق تو ہے کفر بھی مسلمانی

نہ ہو تو مردِ مسلماں بھی کافر و زندیق"


اقبال نے عشق کی عظمت بیان کرتے ہوئے فرمایا....


"عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اولیں ہے عشق

عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدہءتصورات"


اقبال کے نزیک زندگی ختم ہونے والی شے کا نام نہیں...

زندگی کے بارے میں آپ کے خیالات کچھ اس طرح سے ہیں...


"تو اسے پیمانہ امروز و فردا سے نہ ناپ 

جاوداں پیہم دواں، ہر دم جواں ہے زندگی"


موت , زندگی کو کبھی ختم نہیں کر سکتی...اور نہ کبھی زندگی , موت سے ہمکنار ہوتی ہے....


"موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی

ہے یہ شامِ زندگی صبح دوامِ زندگی"


ایک اور جگہ فرمایا...


 موت کے ہاتھوں سے مٹ سکتا اگر نقش حیات 

عام یوں اس کو نہ کر دیتا نظام کائنات 


"ہے اگر ارزاں تو یہ سمجھو اجل کچھ بھی نہیں

جس طرح سونے سے جینے میں خلل کچھ بھی نہیں


آہ غافل موت کا راز ِ نہاں کچھ اور ہے 

نقش کی ناپائداری سے عیاں کچھ اور ہے"


علامہ اقبال کے اشعار سے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو آتی ہے...


"کی محمد (ص) سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں"


"لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب

 گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حجاب"


علامہ اقبال کی شاعری میں ان کے مرشد مولانا رومی کی بھی جھلک نظر آتی ہے....آپ کو روحانی فیض مولانا روم سے عطا ہوا......

علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں شریعت , طریقت , حقیقت اور معرفت تک کے تمام احوال و مقامات بیان کر دیے ہیں...."زہد اور رندی" میں اقبال , منصور بن حلاج رح کا ثانی کہلایا....

آپ نے اپنے عشق کا اظہار منصور رح کے پردے میں چھپ کر بھی کیا...


"منصور کو ہوا لب گویا پیامِ موت

اب کیا کسی کے عشق کا دعوی کرے کوئی"


منصور رح نے جب خودی کے پردے میں حق کو جلوہ فرما پایا تو بول اٹھا "انا الحق"

منصور رح کا کہنا نہیں تھا...حق کی آواز تھی...بات اب فلسفہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی طرف جا رہی ہے...یہ دونوں نظریات تصوف کے بنیادی نظریات ہیں...

وحدت الوجود اور وحدت الشہود کو یہاں بیان کرنا مناسب نہیں...

اقبال کا ایک شعر بیان کرتا چلوں..


"  تو ہے محیط بے کراں ، میں ہوں ذرا سی آبجو

      یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر"


خودی کی پہچان ہی معرفتِ رب ہے...

  ابتدا لا الہ ہے تو انتہا الا اللہ


"خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ"


قطرہ جب سمندر سے مل گیا تو سمندر بن گیا...

ان نظریات کی وجہ سے بہت سے لوگ صوفیاء پر معترض نظر آتے ہیں..علامہ اقبال نے یوں بھی لکھا ہے..

"بہتر ہے کہ بیچارے ممولوں کی نظر سے

پوشیدہ رہیں باز کے احوال و مقامات"

انسان جس مقام پر فائز ہوتا ہے...اس مقام تک کے سفر ہی کی بات کرتا ہے...وہ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ 

"جس کی پہنچ جہاں تلک 

اس کے لیے وہیں پر تو" 

میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو

نہیں ہے بندہ حر کیلئے جہاں میں فراغ




Comments